Thursday, 7 November 2024

Khushamad buri balaa hy

                              خاکہ

ایک کوے کو کہیں سے  پنیر کا ٹکڑا مِلا--------- لومڑی  اُدھر آنکلی اُس کا جی للچایا کوے کی تعریف اور گانے کی فرمائش--------- کوے نے منہ کھولا اور پنیر نیچے گر پڑا--------- لُومڑی اُٹھا کر چل دیتی ہے نتیجہ--------

                      خوشامد بُری بلا ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی کوّےکو حلوائی کی دکان سے پنیر کا ایک ٹکڑا ملا۔وہ اُسے اپنی چونچ میں لے کر، اُڑا اور، ایک درخت پر جا کر بیٹھ گیا۔کوّا، پنیر جیسی نعمت ملنے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اتنے میں ایک لُومڑی بھی پھرتے پھراتے اِدھر آنکی۔جب اُس، نے کّوے کی چونچ میں پنیر کا ٹکڑا دیکھا تو اُس کے منہ میں پانی بھر آیا سوچنے لگی کسی نہ کسی طرح یہ پنیر حاصل کرنا، چاہیئے۔لُومڑی کی مکاری مشہور ہے۔اس نے کوّے کی خوشامد کرنا، شروع کردی کہنے لگی میاں کوّے تم آج کتنے بھلے معلوم ہورہے ہو۔تمہارے سیاہ اور چمکیلے بال بڑے  ہی خوبصورت ہیں۔سُنا، ہےتمہاری آواز بھی بہت دلکش، اور سُریلی ہے۔تمام پرندے تمہاری آواز کی تعریف کرتے ہیں ۔آج کوئی گیت تو سناؤ۔
کوّے نے جب اپنی تعریف سُنی تو پُھلا نہ سمایا۔فورًا چونچ کھول کر کائیں کائیں  کرنے لگا۔جُونہی اُسنے اپنا منہ کھولا پنیر کا ٹکڑا زمین پر گر پڑا۔لُومڑی نے فوراً اُچک لیا اور چلتی بنی۔ جاتے جاتے کوّے کو نصیحت کر گئی 
میاں کوّے خوشامدیوں سے بچنا چاہیئے کسی کی چکنی چُپڑی باتوں میں نہیں آنا چاہیئے"۔
لُومڑی تو یہ کہ کر چل دی اور کوّا اپنی نادانی اور سادگی پر پچھتاتا اور افسوس کرتا رہ گیا۔





Thursday, 31 October 2024

tan badan men aag lagna urdu muhawra

 


This idiom vividly describes a powerful surge of emotions such as anger, jealousy, or passion. Often translating to “to feel as if one’s body is on fire,” it conveys an intense emotional response that almost feels physical.

English Equivalent of "Tan Badan Mein Aag Lagna":

The closest English counterpart for this phrase is “to burn with anger or jealousy,” which similarly describes a powerful, consuming emotion. Another English idiom that captures this intensity is “to be fired up,” reflecting strong motivation or anger. Both of these phrases share the theme of emotions manifesting as an internal fire.

Meaning of "Tan Badan Mein Aag Lagna":

Literally translating to “the body is set ablaze,” Tan Badan Mein Aag Lagna describes feeling consumed by an overwhelming emotion, as though a fire is raging within. This powerful imagery is commonly used to convey frustration, jealousy, or uncontrollable anger in daily language and literature.

Usage in Daily Life:

If a person feels upset upon seeing a friend receive compliments or succeed in something they desired, they might say, “Uski tareef sun kar to mere tan badan mein aag lag gayi,” meaning, “Hearing those compliments set my whole body ablaze with jealousy.” This phrase captures how deep-rooted emotions can affect us intensely.

Similar Idioms in Other Languages:

  1. French: Avoir la moutarde qui monte au nez – "The mustard rises to the nose," meaning to become angry or reach one’s boiling point.
  2. Spanish: Estar con la sangre hirviendo – “To have boiling blood,” expressing intense anger or agitation.
  3. Italian: Avere il fuoco dentro – “To have a fire within,” which implies having strong passion or anger simmering inside.

In Urdu Poetry and Literature:

This idiom appears frequently in Urdu poetry, symbolizing intense love, longing, or betrayal. Poets use it to illustrate emotions that feel as though they’re consuming the heart and soul, creating a rich, expressive image.


عنوان: تن بدن میں آگ لگنا - اردو محاورہ، معنی، انگریزی متبادل اور استعمال

وضاحت: یہ محاورہ شدید جذبات، جیسے غصہ، حسد یا جنون کی ایک کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی کے جذبات اس حد تک بھڑک اٹھے ہیں کہ جیسے اندر ہی اندر آگ لگ گئی ہو۔

انگریزی متبادل:

انگریزی میں اس محاورے کا قریب ترین مفہوم “to burn with anger or jealousy” ہے، جو کسی بھی زبردست اور شدید جذباتی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ انگریزی کا ایک اور محاورہ “to be fired up” بھی اس جذباتی شدت کو بیان کرتا ہے، جس میں اندر کی آگ کا تصور پایا جاتا ہے۔

"تن بدن میں آگ لگنا" کا مطلب:

لفظی معنی کے مطابق، یہ محاورہ اُس کیفیت کو بیان کرتا ہے جب غصہ، حسد یا کوئی جذباتی تاثر اس حد تک ہو کہ جیسے انسان کا جسم اندر ہی اندر بھڑک رہا ہو۔ یہ عام طور پر اردو شاعری اور روزمرہ گفتگو میں جذبات کے گہرے اثر کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

روزمرہ زندگی میں استعمال:

اگر کسی کو اپنے دوست کی تعریف سن کر حسد محسوس ہو تو وہ کہہ سکتا ہے، “اس کی تعریف سن کر تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی،” جس کا مطلب ہے کہ تعریف سن کر مجھے اندر ہی اندر جلن محسوس ہوئی۔ یہ محاورہ جذبات کے شدت سے محسوس ہونے کو خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔

دیگر زبانوں میں مشابہت رکھنے والے محاورے:

  1. فرانسیسی: Avoir la moutarde qui monte au nez – "سرسوں ناک میں چڑھنا"، یعنی شدید غصہ یا بے صبری۔
  2. ہسپانوی: Estar con la sangre hirviendo – "خون اُبلنا"، جس کا مطلب شدید غصہ یا اشتعال۔
  3. اطالوی: Avere il fuoco dentro – "اندر آگ ہونا"، جس سے شدید جذبات یا غصے کا اظہار ہوتا ہے۔

اردو شاعری اور ادب میں استعمال:

تن بدن میں آگ لگنا اردو شاعری میں شدتِ محبت، درد، یا جدائی کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اردو شعرا اس محاورے کے ذریعے اس جذباتی آگ کو ظاہر کرتے ہیں جو عشق یا خواہش کی شدت میں انسان کو اندر ہی اندر جلانے لگتی ہے


Monday, 28 October 2024

sach men barkat hai سچ میں برکت ہے۔

Sach main barkat hy

      خاکہ

-------شیخ عبدالقادر جیلانی --------- بغداد سے روانہ ہوئے ماں کی نصیحت قافلے پر ڈاکوؤں  کا حملہ ---------سامان کی تلاشی---------- ڈاکوؤں  کے سردار کا پوچھنا -------چالیس دینار کا ذکر --------سردار کا حیران ہونا --------نتیجہ-------

                   سچ میں  برکت ہے

کہتے ہیں حضرت  شیخ عبدالقادر جیلانی بچپن کے زمانے میں تحصیلِ علم کے  لئے ایک قافلے کے ہمراہ بغداد روانہ ہوئے۔چلتے وقت انکی والدہ محترمہ نے چالیس دینار انہیں دیئےاور ساتھ ہی یہ نصیحت کی" کہ بیٹا! ہمیشہ سچ بولنا،خواہ تمہیں کیسا  ہی خطرہ کیوں  نہ پیش آئے" اتفاق کی بات ہےاس قافلے پر راستے میں ڈاکوؤں نے حملہ  کردیا اور اہلِ قافلہ کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا۔
جب ڈاکو باری باری  قافلے والوں کی تلاشی لے رہے تھے۔تو ان میں سے ایک ڈاکو نے "آپ سے پوچھا اے لڑکے! بتا تیرے پاس کیا ہے؟"۔آپ نے جواب دیا "میرے پاس چالیس دینار ہیں"۔ڈاکو نے اسے مزاق سمجھا اور آپ کو چھوڑ کر چلاگیا۔بعد میں ایک اور ڈاکو آیا اس نے بھی وہی سوال کیا اور آپ نے پھر وہی جواب دیا کہ  "میرے پاس چالیس دینار ہیں" چنانچہ  وہ آپ کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گیا ۔
سردار نے پوچھا" وہ دینار کہاں ہیں؟ "آپ نے جواب دیا میری ْقمیض کے اندر سلے ہوئے ہیں چنانچہ قمیض چاک کر کے دیکھا گیا تو واقعی اس میں چالیس دینار سِلے ہوئے تھے۔اس پر سردار نے حیران ہو کر کہا کے" تم نے اپنے ان دیناروں کو بچانے کے لیئے  جھوٹ کیوں  نہ بولا "آپ نے جواب دیا میری والدہ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولوں۔اس لیئے  میں اسکی خلاف ورزی نہیں کر سکتا تھا۔
یہ جواب سُن کر سردار کے دل پر بے حد اثر  ہوا۔اس نے سوچا یہ لڑکا ماں کا اتنا فرمانبردار  ہےاور اپنے  خدا کا اس قدر نافرمان ہوں۔اُسی وقت توبہ کی اور اپنے ساتھیوں  سمیت رہزنی کے پیشے کو ہمیشہ کے لیئے ترک کر دیا۔۔

        







 

Wednesday, 23 October 2024

imandari behtareen hikmat-e-amli hy

                               خاکہ 

---------کسی راجہ کا لڑکا -------شکار کھیلتے ساتھیوں  سے بچھڑ گیا شام ہو گئی --------کسان کے گھر رات گزارنا ---------کِسان کو ایک اشرفی دینا ---------کِسان
کا انکار ----------کِسان کے بیٹے کو بٹوا ملا ---------ایک سال بعد راجہ  کے بیٹے کا پھر آنا-------- اپنا کھویا ہوا بٹوا پاکر خوش ہونا-------- نتیجہ

ایمانداری بہترین حکمتِ عملی ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی راجہ کا لڑکاشکار کھیلتے  ہوئے جنگل میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر راستہ بھول گیا چلتے چلتے شام ہو گئی۔دور سے ایک جھونپڑی دکھائی دی نزدیک پہنچا تو معلام ہوا ایک کسان کا گھر ہے۔راجہ کے لڑکے نے کِسان سے کہا" رات کا وقت ہے ،راستہ بھول گیا ہوں، تم اجازت دو تو رات یہاں  کاٹ لوں"؟ آپ کا گھر ہے آئیے بڑی  خوشی سے یہاں  ٹھریئے جو کچھ روکھی سُوکھی گھر میں موجود ہے حا ضر ہے
راجہ کے بیٹے  نے رات وہاں کاٹی خوب آرام پایا صبح ہوئی  تو اپنے گھر کا راستہ لیاچلتے وقت بٹوے میں سے ایک اشرفی نکال کر کِسان کو دینے لگا۔کِسان نے لینےسے انکار کر دیااور کہا ہم نے آپ کی خدمت روپے کی لالچ میں نہیں کی ہے۔یہ تو ہمارا اخلاقی فرض تھا۔آپ ہمیں شرمندہ کیوں کرتے ہیں"۔؟
دن چڑھا تو کِسان کا لڑکا بیل لی کرباہر کھیتوں کو چل دیا۔۔راستے میں اُسے بٹوا، ملا۔کھول کر دیکھا تو اُس میں بیس اشرفیاں تھیں۔لڑکے نے بٹوا، اُسی جگہ زمین میں دبا دیااور باپ کو آکر خبر دی۔باپ نے کہا تم نے بہت اچھا کیاکہ بٹوا، وہیں دبا دیا۔یہ پرایا مال ہے۔اس کے مالک کی تلاش کریں گے۔جب ملے گا تو اُسے دے دیں گے
ایک سال بعد راجہ کا لڑکا، پھر اُدھر سے گزرا اور کِسان کو ملنے کے لیئے ٹھر گیا۔باتوں باتوں میں اُس نے اپنے بٹوے کے گِر جانے کا بھی ذکر کیا۔کِسان بہت خوش ہوا، اور کہا۔آپ کا بٹوا میرے لڑکے کو ملا تھااور جہاں پایا تھا وہیں اُسنے دبا دیا جائیے جا کر نکال لیجئے۔راجہ کے لڑکے نے کہا آپ منگوا دیں۔کِسان نے لڑکے کو بھیجااور وہ بٹوا، لے آیا۔راجہ کے َلڑکے نے اُسے کھول کر دیکھا تو اُس میں پوری کی پوری اشرفیاں پائیں۔اُس نے اُس میں بیس اشرفیاں اور ڈال دیں اور کسان سے کہا لو یہ بٹوا میں تمہیں انعام دیتا ہوں۔میں تمہارے راجہ کا بیٹا ہوں کِسان یہ سُن کر لڑکے کے قدموں میں گِر پڑا اور کہنے لگا ہمیں معلوم نہ تھا۔کہ آپ ہمارے آقا ہیں۔اب میں یہ انعام آپ سے لے لیتا ہوں۔میں اس اپنے بیٹے کے بیاہ پر خرچ کروں گا۔
سچ ہے ایمنداری کا پھل ضرور ملتا ہےاور ایماندار آدمی ہمیشہ دینا میں سربلند اور سرخرو ہوتا ہے۔






Story: Honesty is the Best Policy

Once upon a time, the son of a king went hunting. While hunting in the forest, he got separated from his companions and lost his way. As he wandered, evening fell. In the distance, he saw a small hut. When he approached, he realized it was the home of a farmer. The prince asked the farmer, “It’s getting late, and I’ve lost my way. Could I stay here for the night?”

The farmer replied, “This is your home. Please, come in! We’d be happy to have you here. We don’t have much, but whatever little food we have is yours.”
The prince spent the night at the farmer’s house, rested well, and prepared to leave in the morning. As he was leaving, he took a gold coin from his wallet and offered it to the farmer. The farmer refused to accept it, saying, “We didn’t serve you for the sake of money. It was our moral duty to help you. Why would you embarrass us by offering money?”

Later that day, the farmer’s son took the ox and went to the fields. On his way, he found a wallet lying on the ground. He opened it and saw that it contained twenty gold coins. The boy buried the wallet right where he had found it and went back home to tell his father. His father praised him and said, “You did the right thing by leaving the wallet there. It belongs to someone else. We’ll wait for the owner and return it to them when they come looking.”

A year later, the prince passed by the same area again and decided to stop by and visit the farmer. During their conversation, he mentioned losing his wallet the previous year. The farmer was overjoyed and said, “My son found your wallet and buried it where he discovered it. You may go and retrieve it.”

The prince asked the farmer to have his son bring it. The farmer sent his son, who returned with the wallet. The prince opened it and found all the gold coins intact. Overwhelmed with joy, he added twenty more gold coins to the wallet and said to the farmer, “Take this wallet as a reward. I am the king’s son.”

Upon hearing this, the farmer fell at the prince’s feet and said, “We didn’t know you were our ruler’s son. Now that I know, I’ll humbly accept this reward. I will use it for my son’s wedding.”
It is true that honesty always bears fruit, and an honest person is always respected and successful in this world.


The story beautifully highlights the timeless value of honesty and how it brings respect and rewards in unexpected ways.

Thursday, 3 June 2021

Chugal khori ka anjam

                               خاکہ 

ایک شیر بیمار ہو جاتا ہے تمام------ حیوانات اس کی بیمار پُرسی کے لیئے آتے ہیں لُومڑی نہیں آتی بھیڑیا---------  چغلی کھاتا ہے --------آخر لُومڑی بھی آتی ہے دوا لانے کا بھانا بناتی ہے ---------شیر  بھیڑیے کی ٹخنے کی ہڈی نکال کر کھا جاتا ہے -------بھیڑیئے  کو چغلی کھانے کی سزا مل جاتی ہے-------- نتیجہ 

                   چُغلخوری کا انجام

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شیر بہت سخت بیمار ہوگیا ۔جنگل کے تمام حیوانات بیمارپُرسی کے لئے آئےمگر لُومڑی نہ آئی شیر  نے دوسرے جانوروں  سے اسکے نا آنے ک وجہ پوچھی اس پر بھیڑیا کہنے لگا حضور والا وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتی ہےبھلا اُسے آپ کی کیا پرواہ یہ سُن کرشیر نہایت خشمگین ہوا۔اور اس نے لُومڑیکو حاضر کرنے کا حکم دیا۔
جنگل کے بادشاہ کا حکم تھا۔بیچاری لُومڑی کے لئے آنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔مگر اُسے بھیڑئیے کے چغلی کھا نے کا حال معلوم ہو چکا تھا۔جب وہ شیر کے سامنے حاضر ہوئی تواُس نے اُس کے غیر حاضر رہنے کا سبب دریافت کیا۔لُومڑی نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ بادشاہ سلامت! مُجھے حضور کی بیماری کا حال معلوم ہو چکا تھا۔مگر میں اِدھر اُدھر پھرتے 
پھراتی رہی تاکہ کوئی دوا مل جائے تو میں لیتی آؤں۔
شیر نے پوچھا تو پھر تمہیں دوائی  ملی ہے؟۔لُومڑی نے دست بستہ عرض کی کہ ہاں  حضور ! دوائی  مل گئی ہے۔شیر نے پوچھا وہ کیا دوائی ہے؟ لُومڑی نے کہا  حضور دوائی بھیڑیے  کے ٹخنے کی ہڈی ہے۔ شیر نے اُسی وقت پنجا مارا اور ٹخنے کی ہڈی نکال کر کھا گیا۔بھیڑیا بھی وہاں سے لہولُہان باہر نکلا۔لُومڑی نے آگے بڑھ کر کہا میاں بھیڑے ! جب تم بادشاہوں کے سامنے جایاکرو تو دیکھ لیا کرو کہ تمہارے منہ سے کیا نکلتا ہے۔بے سوچے سمجھے بات کرنا مُفید نہیں ہوتا۔
download urdu story chughal khori ka anjam here

or watch video on youtube



Tuesday, 1 June 2021

catalogue/ فہرست


حاصل مصدر
__________________________________________
___________________________________



___________________________________________________________