Facebook Icon
Urdu grammar online Visit
Alif Bay Pay Tracing Icon
Alif Bay Pay Tracing Install
YouTube Icon
Urdu Grammar Online

Friday, 7 March 2025

Jaosa kro gy wesa bharo gy.

    جیسا کرو گے ویسا بھرو گے

   ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک سوداگر رہتا،تھا۔ایک بار اسے تجارت کی غرض کسی دوسرے مُلک میں جانا پڑ گیا۔اس کے پاس پانچ سیر سونا تھا۔وُہ حیران تھا کہ اُسے کہاں محفوظ کرے۔اتفاق سے اسی شہر میں اس کا ایک دوکاندار دوست تھا۔سوداگر نے وہ سونا ایک صندوقچے میں بند کیا۔اور اپنے دوست کے پاس لے گیا اور اس سے کہا کہ میں کُچھ عر صہ کے لئے مُلک سے باہر جارہا ہوں۔آپ یہ سونا بطورِ امانت اپنے پاس رکھ لیں۔میں واپس آکر لے لوں گا۔چنانچہ اس کام سے فارغ ہو کر سوداگر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔
چار پانچ ماہ بعد جب سوداگر وطن واپس آیا تو وہ اپنی امانت واپس لینے کے لئے دوکاندار دوست کے پاس پہنچا۔اور اپنی امانت مانگی اس پر دوکاندار نے بڑے افسوس کے ساتھ  سوداگر کو بتایا کہ اُس کا سونا چوہے کھا گئے ہیں۔اُس نے جھوٹی قسمیں کھا کرسوداگر کو یقین دلایاکہ وہ بلکل سچ کہ رہا ہے بیچارہ سوداگر یہ سن کر خاموش رہا اور واپس گھر چلا آیا۔
چند روز کے بعد سوداگر کے ذہن میں ایک ترکیب  آئی اس نی دوکاندار کو بیوی بچے سمیت  اپنے ہاں کھانے پر بُلایا۔کھانے کہ دوران  میں اُس نے آنکھ بچا کر دوکاندار کے چھوٹے لڑکے کو کہیں چھپا دیا۔وہ دُکاندار جب کھانے سے فارغ ہوا تو چھوٹا لڑکا غا ئب تھا۔اِدھر اُدھر بڑی جستجو کی گئی مگرلڑکے کا کہیں پتہ نہ چلا۔آخر سوداگر نے دوکاندار کو بتا یا کہ آس کے لڑکے کو ابھی ابھی ایک چیل اُٹھا کر لے جا رہی تھی۔دوکاندار نے حیران ہو کر کہا کبھی چیل بھی اتنے بڑے لڑکے کو اُٹھا کے لے کر جا سکتی ہے۔۔آپ کیسی نہ ممکن بات کہ رہے ہیں؟۔اس پر سوداگر نے کہا کہ جب ملک میں چوہے پانچ سیر سونا کھا جاتے ہیں وہاں چیلیں بھی بچوں کو اُٹھا کر لےجا سکتی ہیں۔یہ سُن کر دوکاندار شرم سے پانی پانی ہو گیا۔
وہ سوداگر کا اشارہ سمجھ چُکا تھا چنانچہ اُس نے سوداگر سے معافی مانگی اور اُس کا سونا واپس کر دیا۔سوداگر نے بھی اُس کا لڑکا اُس کے حوالے کر دیا۔۔اور یوں اپنی حکمتِ عملی سے سوداگر نے اپنی کھوئی ہوئی دولت واپس دوبارہ حاصل کرلی۔اس حکایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے۔



 



Sunday, 2 March 2025

Garror ka sar necha

خاکہ

ایک خرگوش کی ایک کچھوے سے ملاقات  ----------کچھوے کی سست رفتار پر طعنہ زنی دونوں کے درمیان مقابلہ ہوا --------خرگوش آگے نکل جاتا ہے-------- خرگوش ایک درخت کے سائے میں سو جاتا ہے ------کچھوا چلتا رہتا ہے اور منزل پر پہنچ جاتا ہے------- نتیجہ

                      غرور کا سر نیچا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جنگل میں خرگوش رہتا تھا۔اُسے اپنی تیز رفتاری پر بڑا ناز تھا۔وہ ہر وقت اپنے پڑوسی  کچھوے  کو تنگ کرتا اور اُسکی سست  رفتاری پر اُسے طعنے دیتا رہتا تھا ۔روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر آخر، ایک دن کچھوے نےخرگوش سے کہا۔آؤ ہم تم ایک میل کی دوڑ کا مقابلہ کرلیں۔خرگوش کچھوے کی اس بات پر بہت ہنسااور کہنے لگا،کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ تم اور میرا مقابلہ لیکن کچھوے نے اپنی تجویز پھر دُھرائی اور اس پر اصرار کیا چاروناچاراس کا چیلنج قبول کرنا پڑا۔چنانچہ اسی وقت دونوں نے دوڑ کا وقت اور جگہ مقرر کر لی۔
اگلے دن وقت مقررہ پر دوڑ شروع ہو گئی خرگوش نہایت تیزی سے چھلانگیں لگاتا ہوا کچھوے سے بہت آگے نکل گیا۔کافی دور جاکر پیچھے دیکھا تو کچھوا کہیں نظر نہ آیا۔جی میں کہنے لگا۔ایسی جلدی کی کیا ضرورت ہے۔کچھوا میرا، مقابلہ خاک کرے گا۔تھوڑی دیر سستا لوں پھر آگے روانہ ہوں گا۔چنانچہ  وہ سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ گیا۔
ٹھنڈی ٹھنڈی  ہوا چل رہی تھی۔جلد ہی خواب غفلت کے مزے لینے لگا۔خرگوش کی نیند مشہور ہے۔سویا تو گھنٹوں کی خبر لایا۔
اِدھر کچھوا مستقل مزاجی سے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔خرگوش کو سوتا چھوڑ کر خاموشی سے اس کے پاس سے گزر گیا اور  منزلِ مقصود پر جا پہنچا۔جب خرگوش کی آنکھ کھلی تو دن غروب ہونے کے قریب تھا۔دِل میں کہنے لگا ابھی کچھوا بہت پیچھے ہے۔میں دو تین  چھلانگوں میں منزلِ مقصود پر پہنچ جاؤں  گا۔غرض دوڑتا ہوا منزل پر  پہنچا تو کچھوا وہاں پہلے سے موجود تھا۔
خرگوش نے جب  حریف کو اپنے سے پہلےوہاں موجود پایا تو اسکی شرمندگی کی کوئی انتہا نہ رہیں۔مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ مگر کچھوا بازی جیت چکا تھا اور خرگوش کو قدرت کی طرف سے اُسکے غرور کی سزا مل چکی تھی۔
سچ ہے جو کوئی غرور اور تکبر کرتا ہے۔اُسے سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔


غرور کا سر نیچا

 

Popular Posts