Thursday, 27 March 2025

لالچ بُری بلا ہے lalach buri bala hai urdu story

                        لالچ بُری بلا ہے


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین دوست کہیں  سفر پر جارہے تھے چلتے چلتے وہ  ایک شہر کے قریب پہنچے۔ دن بھر کے سفر سے کافی تھک چکے تھے۔ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیئے بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس ہی ایک پوٹلی سی پڑی ہے۔ اُٹھا کر دیکھا تو روپوں کی تھیلی تھی۔ مارے خوشی کے اُچھل پڑے کہ بغیر کسی محنت اور  کوشش کے اتنی بڑی رقم ہاتھ لگ گئی ہے۔ اس اثنا میں انہیں کافی بھوک بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ انھوں نے طے کیا کہ پہلے کھانے کا بندوبست کریں ۔بعد میں اس رقم کو آپس میں برابر  برابر تقسیم کریں گے۔ شہر قریب ہی  تھا۔ انہوں نے اپنے میں سی ایک ساتھی کو کچھ روپے دے کر شہر بھیجا کہ پُر تکلف قسم کا کھانا لے آئے۔ جب وہ کھانا لینے چلاگیا، تو باقی دو دوستوں نے آپس میں یہی  سوچا کہ اگر ہم اس رقم کو تین حصوں  میں تقسیم کیا تو تھوڑی تھوڑی رقم ہی ہمارے ہاتھ لگے گی۔ کیوں نہ ہم تیسرے کا قصہ پاک کر دیں۔ اور اس رقم کو دو برابر حصوں  میں بانٹ لیں۔

چنانچہ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ جونہی  تیسرا ساتھی شہر سے واپس آئے اُسے مار ڈالیں۔ خدا کی قدرت کہ اُدھر اسی قسم کا خیال تیسرے دوست کے دل میں بھی پیدا ہوا۔ وہ اپناسوچ رہا تھا کہ تیسرے حصے کی رقم سے میرا کیا بنے گا۔ بہتر یہی ہے کہ باقی دونوں کو راستے سے ہٹا دوں۔ اور پوری کی پوری رقم پر قبضہ کرلوں۔ اُس خیال کہ پیشِ نظر اُس نے اُن کے کھانے میں زہر ملا دیا۔

دونوں ساتھی کھانے کے انتظار میں بیٹھے  تھے۔ جب تیسرا ساتھی کھانا لے کر آیا تو دونوں اس پر یہ کہتے  ہوئے پل پڑے کہ تم نے آج ہمیں بھوکوں مار دیا ہے۔ ہم اتنی دیر سی تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ تم جان بوجھ کر اتنا وقت لگا کر آئے ہو۔ ہمیں تمہاری نیت پر شبہ  ہے۔ یہ کہا اور اُسے مارتے مارتے ہلاک کر دیا۔ پھر خود بڑے اطمینان سے کھانا کھانے بیٹھ گئے  ۔کھانا کھا چکنے کے بعد تھوڑی ہی دیر  گزری تھی کہ زہر نے اپنا اثر دکھانا  شروع کر دیا ۔ کو ئی گھنٹہ بھر میں دونوں زمین پر ڈھیر  تھے۔ یُوں لالچ نے تینوں کی جان لے لی۔

                  

                 "سچ ہے لالچ بُری بلا ہے"







Wednesday, 12 March 2025

Jhoot ka bura anjam

 

جھوٹ کا بُرا انجام

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گڈریا بکریاں چرانے کے لیئے  باہر جنگل میں جایا کرتا تھا۔یہ جنگل گاؤں سے ذرا فاصلے پر تھا۔ایک دن اس گڈریے کو مزاق سوجھا۔ اُس نے جھوٹ موٹ چلانا شروع کیا۔ لوگو! شیر آگیا، شیر آگیا، دوڑو، میری مدد کو آؤ۔میری جان خطرے میں ہے"۔جب لوگوں نے اسکی آواز سُنی تو فوراََ  لاٹھیاں  لیے  دوڑے دوڑے اس کے پاس پہنچ گئے۔ لیکن وہاں  کسی شیر وغیرہ کا کوئی نام و نشان نہ پایا۔ لڑکے نے اُنہیں دیکھا تو ہنس پڑا اور کہنے لگا "میں نے تو صرف یہی دیکھنے کے لئے  ایسا کیا تھا کہ آپ لوگ میری مدد کو آتے ہیں یا نہیں"۔
اگلے روز اُس نے پھر ایسا ہی کیا اور لوگ بچارے  اُس کی بات پر یقین کرتے ہوئے پھر بھاگم بھاگ چلے آئے۔ مگر وہ کہنے لگا کہ آج میں  نے صرف  مذاق کے  طور پر شور مچایا تھا۔ آپ کا شکریہ اس پر لوگوں  کو غصہ تو بہت آیا  مگر وہ خبر پر جزبز ہو کر رہ گئے۔ اور اسےدل ہی دل میں کوستے ہوئے واپس گھروں کو چلے گئے۔ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ آئندہ  کبھی بھی اس کی بات کا یقین نہیں  کریں گے۔ تیسرے دن کرنا خُدا کا ایسا ہوا کہ سچ مُچ ایک شیر آنکالا۔ اور ریوڑ میں گھس کر بکریوں کو چیرنے پھاڑنے لگا۔ لڑکے نے جب دیکھا تو شور مچانے اور واویلا کرنے لگا کہ "شیر آگیا ہے ، خدا کی قسم سچ مچ شیر آگیا ہے"۔ مگر کوئی بھی شخص اُس کی مدد کو نہ آیا۔ شیر نے کافی بھیڑ بکریوں کو ہلاک کر دیا اور چلتا بنا۔ بعد میں جب لوگوں کو صحیح صورتِ حال کا پتہ چلا تو اُنہوں نے اُلٹا اُس لڑکے کو ملامت کی کہ تم نے خود ہی جھوٹ بول کر اپنا اعتبار کھو دیا تھا۔ اس لئے ہم تمھاری بات پر کیونکر یقین کر سکتے تھے ۔
نتیجہ: اس حقایت سے  ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹے آدمی کے سچ کا بھی کوئی شخص اعتبار نہیں کرتا اور جھوٹ واقعی بہت بڑی لعنت  ہے۔
jhoot ka anjam urdu story


jhoot aik lanat ahi story






The Bad Consequence of Lying

Once upon a time, there was a shepherd who used to take his goats to the forest for grazing. This forest was a little far from the village. One day, the shepherd thought of playing a prank. He started shouting loudly, "People! A lion has come! A lion has come! Run and help me! My life is in danger!"

Hearing his cries, the villagers immediately grabbed sticks and rushed to help him. However, when they arrived, there was no sign of a lion. Seeing them, the boy laughed and said, "I just wanted to see if you would come to help me or not."

The next day, he did the same thing again. The poor villagers, believing him once more, ran to help him. But again, he laughed and said, "Today, I shouted just as a joke. Thank you for coming!" The villagers were furious but left feeling frustrated and cursed him in their hearts. They decided that they would never believe him again.

On the third day, by God's will, a real lion appeared. It attacked the herd, tearing apart the goats. Seeing the danger, the boy cried out in panic, "A lion has come! I swear, a real lion has come!" However, no one came to help him. The lion killed many goats and left.

Later, when the villagers found out what had happened, they scolded the boy, saying, "You lost your credibility by lying. How could we believe you after that?"

Moral: This story teaches us that a liar's truth is also not trusted, and lying is truly a terrible curse.


Friday, 7 March 2025

Jesa kro gy wesa bharo gy.

    جیسا کرو گے ویسا بھرو گے

   ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک سوداگر رہتا،تھا۔ایک بار اسے تجارت کی غرض کسی دوسرے مُلک میں جانا پڑ گیا۔اس کے پاس پانچ سیر سونا تھا۔وُہ حیران تھا کہ اُسے کہاں محفوظ کرے۔اتفاق سے اسی شہر میں اس کا ایک دوکاندار دوست تھا۔سوداگر نے وہ سونا ایک صندوقچے میں بند کیا۔اور اپنے دوست کے پاس لے گیا اور اس سے کہا کہ میں کُچھ عر صہ کے لئے مُلک سے باہر جارہا ہوں۔آپ یہ سونا بطورِ امانت اپنے پاس رکھ لیں۔میں واپس آکر لے لوں گا۔چنانچہ اس کام سے فارغ ہو کر سوداگر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔
چار پانچ ماہ بعد جب سوداگر وطن واپس آیا تو وہ اپنی امانت واپس لینے کے لئے دوکاندار دوست کے پاس پہنچا۔اور اپنی امانت مانگی اس پر دوکاندار نے بڑے افسوس کے ساتھ  سوداگر کو بتایا کہ اُس کا سونا چوہے کھا گئے ہیں۔اُس نے جھوٹی قسمیں کھا کرسوداگر کو یقین دلایاکہ وہ بلکل سچ کہ رہا ہے بیچارہ سوداگر یہ سن کر خاموش رہا اور واپس گھر چلا آیا۔
چند روز کے بعد سوداگر کے ذہن میں ایک ترکیب  آئی اس نی دوکاندار کو بیوی بچے سمیت  اپنے ہاں کھانے پر بُلایا۔کھانے کہ دوران  میں اُس نے آنکھ بچا کر دوکاندار کے چھوٹے لڑکے کو کہیں چھپا دیا۔وہ دُکاندار جب کھانے سے فارغ ہوا تو چھوٹا لڑکا غا ئب تھا۔اِدھر اُدھر بڑی جستجو کی گئی مگرلڑکے کا کہیں پتہ نہ چلا۔آخر سوداگر نے دوکاندار کو بتا یا کہ آس کے لڑکے کو ابھی ابھی ایک چیل اُٹھا کر لے جا رہی تھی۔دوکاندار نے حیران ہو کر کہا کبھی چیل بھی اتنے بڑے لڑکے کو اُٹھا کے لے کر جا سکتی ہے۔۔آپ کیسی نہ ممکن بات کہ رہے ہیں؟۔اس پر سوداگر نے کہا کہ جب ملک میں چوہے پانچ سیر سونا کھا جاتے ہیں وہاں چیلیں بھی بچوں کو اُٹھا کر لےجا سکتی ہیں۔یہ سُن کر دوکاندار شرم سے پانی پانی ہو گیا۔
وہ سوداگر کا اشارہ سمجھ چُکا تھا چنانچہ اُس نے سوداگر سے معافی مانگی اور اُس کا سونا واپس کر دیا۔سوداگر نے بھی اُس کا لڑکا اُس کے حوالے کر دیا۔۔اور یوں اپنی حکمتِ عملی سے سوداگر نے اپنی کھوئی ہوئی دولت واپس دوبارہ حاصل کرلی۔اس حکایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے۔



 



Sunday, 2 March 2025

Garror ka sar necha

خاکہ

ایک خرگوش کی ایک کچھوے سے ملاقات  ----------کچھوے کی سست رفتار پر طعنہ زنی دونوں کے درمیان مقابلہ ہوا --------خرگوش آگے نکل جاتا ہے-------- خرگوش ایک درخت کے سائے میں سو جاتا ہے ------کچھوا چلتا رہتا ہے اور منزل پر پہنچ جاتا ہے------- نتیجہ

                      غرور کا سر نیچا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جنگل میں خرگوش رہتا تھا۔اُسے اپنی تیز رفتاری پر بڑا ناز تھا۔وہ ہر وقت اپنے پڑوسی  کچھوے  کو تنگ کرتا اور اُسکی سست  رفتاری پر اُسے طعنے دیتا رہتا تھا ۔روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر آخر، ایک دن کچھوے نےخرگوش سے کہا۔آؤ ہم تم ایک میل کی دوڑ کا مقابلہ کرلیں۔خرگوش کچھوے کی اس بات پر بہت ہنسااور کہنے لگا،کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ تم اور میرا مقابلہ لیکن کچھوے نے اپنی تجویز پھر دُھرائی اور اس پر اصرار کیا چاروناچاراس کا چیلنج قبول کرنا پڑا۔چنانچہ اسی وقت دونوں نے دوڑ کا وقت اور جگہ مقرر کر لی۔
اگلے دن وقت مقررہ پر دوڑ شروع ہو گئی خرگوش نہایت تیزی سے چھلانگیں لگاتا ہوا کچھوے سے بہت آگے نکل گیا۔کافی دور جاکر پیچھے دیکھا تو کچھوا کہیں نظر نہ آیا۔جی میں کہنے لگا۔ایسی جلدی کی کیا ضرورت ہے۔کچھوا میرا، مقابلہ خاک کرے گا۔تھوڑی دیر سستا لوں پھر آگے روانہ ہوں گا۔چنانچہ  وہ سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ گیا۔
ٹھنڈی ٹھنڈی  ہوا چل رہی تھی۔جلد ہی خواب غفلت کے مزے لینے لگا۔خرگوش کی نیند مشہور ہے۔سویا تو گھنٹوں کی خبر لایا۔
اِدھر کچھوا مستقل مزاجی سے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔خرگوش کو سوتا چھوڑ کر خاموشی سے اس کے پاس سے گزر گیا اور  منزلِ مقصود پر جا پہنچا۔جب خرگوش کی آنکھ کھلی تو دن غروب ہونے کے قریب تھا۔دِل میں کہنے لگا ابھی کچھوا بہت پیچھے ہے۔میں دو تین  چھلانگوں میں منزلِ مقصود پر پہنچ جاؤں  گا۔غرض دوڑتا ہوا منزل پر  پہنچا تو کچھوا وہاں پہلے سے موجود تھا۔
خرگوش نے جب  حریف کو اپنے سے پہلےوہاں موجود پایا تو اسکی شرمندگی کی کوئی انتہا نہ رہیں۔مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ مگر کچھوا بازی جیت چکا تھا اور خرگوش کو قدرت کی طرف سے اُسکے غرور کی سزا مل چکی تھی۔
سچ ہے جو کوئی غرور اور تکبر کرتا ہے۔اُسے سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔


غرور کا سر نیچا

 

Popular Posts